Select Page

السلام انسٹيٹيوٹ لندن كى سالانه تقريب

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

صاحب ساز كو لازم ہے كه غافل نه رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بهى ہوتا ہے سروش
آج (شام ساڑهے چه سے ساڑهے نو بجے تك، 18 دسمبر 2020) السلام انسٹيٹيوٹ لندن/آكسفورڈ كے جلسۂ تقسيم اسناد كى سالانه تقريب راقم السطور كى صدارت ميں منعقد ہوئى، اس جشن مسرت آگيں ميں السلام كے ڈائريكٹر ڈاكٹر ابو الفرحان، اسٹاف كے ممبران، اساتذه، اور مختلف مغربى اور غير مغربى ممالك سے طلبه كى بڑى تعداد شريك ہوئى، يه ہمارے لئے سعادت كا موقع تها، اور ہم اپنے رب كريم كا شكر بجا لاتے ہيں كه صرف اس كے فضل سے اس انسٹيٹيوٹ نے اتنى مسافت طے كى، اور الحمد لله اس كا دائرۂ كار روز بروز ترقى پزير ہے ۔
السلام انسٹيٹيوٹ ميں سنه 2006م سے دار العلوم ندوة العلماء كے نصاب وفكر كے مطابق عربى سال اول سے عالميت كے آخرى درجه تك كى تعليم ہو رہى ہے، يہاں يورپ، امريكه، كناڈا، آسٹريليا، اور دنيا كے دوسرے ملكوں كے انگريزى بولنے والے طلبه زير تربيت ہيں، اس وقت طلبه كى تعداد تقريبا تين سو ہے، جو مغربى يونيورسيٹيوں كے فارغ ہيں، اپنے دين كى صحيح معرفت كے حصول كے جذبه سے وه السلام ميں عالميت كا نصاب مكمل كر رہے ہيں، تا كه وه دينى ودنيوى دونوں تعليم كے جامع بن سكيں،السلام كو روز اول سے مخدوم معظم واستاد محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ناظم دار العلوم ندوة العلماء دامت بركاتہم كى سرپرستى ورہنمائى حاصل ہے، اور اس كا دار العلوم سے الحاق بهى ہے، يه مغربى دنيا كا پہلا اداره ہے جو ندوه سے منسلك ہے ۔
جلسه كى نظامت استاد اندريو بوسو (نو مسلم عالم) نے كى، آغاز اسى اداره كے فارغ التحصيل عزيز گرامى استاد ابو ہريره كى قراءت سے ہوا ، اس كے بعد محترم اساتذۂ كرام عابد خان، اخلاق چودهرى اور ڈاكٹر عبد الحكيم واسكيز (اسپين كے نو مسلم) نے طلبه سے خطاب كيا، يه اساتذه بهى السلام كے تعليميافته ہيں، انہوں نے فارغ ہونے والے طلبه كو مباركباد دى، انہيں ياد دلايا كه محصلى كا مطلب يه نہيں ہے كه وه عالم ہوگئے، يه ان كے سفر كا پہلا زينه ہے، انہيں مطالعه كرنا ہے، اور اپنے علم وتجربه ميں اضافه كى ہر ممكن كوشش كرنى ہے، اس موقع پر انہوں نے سلف صالحين كى قربانيوں اور ان كے اخلاص كے مؤثر واقعات سنائے، اور اس پر زور ديا كه بالعموم علماء كى توجه فقه كى طرف ہوتى ہے، كيونكه معاشرے كے زياده تر سوالات انہيں جزئى مسائل سے متعلق ہوتے ہيں، ليكن انہين اس سطح سے بلند ہونا ہے، اور كتاب الہى كو اپنا مقصود بنانا ہے، كيونكه وہى ہدايت كى كتاب ہے، اور اسى سے ہر حال اور ہر ماحول ميں ہمارے مسائل حل ہوں گے، ان اساتذۂ كرام نے طلبه كو سستى وكاہلى سے دور رہنے، اور عزم مصمم وسعى پيہم سے الفت كا رشته استوار كرنے كى ترغيب دى:
عيش منزل ہے غريبان محبت په حرام * سب مسافر ہيں بظاہر نظر آتے ہيں مقيم
اس سال فارغ ہونے والے طلبه كى تعداد پانچ تهى، جن ميں سے تين كا تعلق انگلينڈ سے اور دو كا امريكه سے ہے، يه طلبه اپنے اپنے ميدانوں ميں اہم پوسٹس پر فائز ہيں، ان طلبه بهى نے بهى مختصر تقريريں كيں، جن ميں انہوں نے اپنے والدين، اہل خانه، اعزه واقارب، انسٹيٹيوٹ، سٹاف اور مدرسين كا شكريه ادا كيا، ان تقريروں ميں دو اہم باتيں مشترك تهيں، ايك تو يه كه السلام كا تعليمى معيار كتنا بلند ہے، يہاں انہوں نے ايك كهلے ہوئے ماحول ميں اسلامى علوم كى تعليم گہرائى سے اخذ كى، دوسرى چيز جسے انہوں نے خاص طور سے سراہا يه تهى كه السلام ميں سوچنے كى تربيت ہوتى ہے، طلبه كے سوالات كى قدر ہوتى ہے، اور انہيں اختلاف رائے كى آزادى دى جاتى ہے، يہاں اساتذه نه يه كه اختلاف كى اجازت ديتے ہيں، بلكه اس كى ہمت افزائى كرتے ہيں، اس طريقۂ تعليم سے سوچنے اور سمجهنے كى غير معمولى تربيت ملتى ہے اور عقل وخرد كى باليدگى كا سامان ہوتا ہے ۔
السلام كے اساتذه اور طلبه كے لئے بڑى خوشى اور سعادت كى بات تهى كه مخدوم معظم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ندوى دامت بركاتہم نے ان كے لئے اپنا خصوصى پيغام بهيجا تها، جسے غور سے سنا گيا، اور السلام كے استاد ڈاكٹر عمر خان نے اس پيغام كا انگريزى ترجمه پڑهكر سنايا، اس پيغام ميں استاد محترم نے ناچيز كو جن بلند كلمات سے نوازا اور اپنے تعلق كا اظہار فرمايا وه ميرے لئے بہت بڑى سعادت ہے، اور يه اداره حقيقتًا مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه كى تمناؤں اور استاد محترم كى توجه كى بركت كا ثمر ہے، استاد محترم نے السلام كے اس امتياز كا بطور خاص ذكر كيا كه اس ميں دنيوى اور دينى دونوں تعليم كے ماہرين تيار ہوتے ہيں، جو ايك مشكل كام ہے اور حوصلۂ بلند كا متقاضى، آخر ميں اس شرط پر طلبه كو اپنى اجازت عامه عطا كى كه صحيح بخارى كى پہلى حديث پڑهكر سنائيں، چنانچه ان طلبه نے حديث انما الاعمال بالنيات سند كے ساته پڑهى اور اجازت كے مستحق ٹهہرے ۔
اس موقع پر قرآنيات سے خصوصى اشتغال كے لئے مشہور استاد برادر محترم نعمان على خان نے بهى طلبه سے خطاب كيا، جس ميں انہوں نے نا چيز سے اپنے غير معمولى ربط كا ذكر كيا اور اس كى افاديت كو اجاگر كيا، اور فرمايا كه انہيں طلبه پر رشك آرہا ہے، كاشكه انہيں بهى يہاں پڑهنے كا موقع ملتا، انہوں نے طلبه كو نصيحت كى كه كس طرح عوام ميں كام كريں، وه معاشره جس ميں انہيں رہنمائى كا فريضه انجام دينا ہے وه كلاس رومز كے ماحول سے مختلف ہے، اس كے تقاضے جدا ہيں، انہيں نئے نشيب وفراز كے لئے خود كو تيار كرنا ہوگا ۔
خاكسار نے اپنے صدارتى خطاب ميں السلام كے اساتذه اور اسٹاف كا شكريه ادا كيا، ان كى خدمتوں كو سراہا، اس كے بعد استاد محترم كے پيغام كى اہميت كو بيان كيا، اور ياد دلايا كه آج سے چاليس سال پہلے جب ميں ندوه ميں طالبعلم تها اس وقت بهى حضرت وہاں كے سينير اور قابل احترام استاد تهے، شرافت، تقوى، تواضع اور زہد ميں اپنے معاصرين ميں ممتاز تهے، اورآج جبكه ان كى عمر نوے سال سے متجاوز ہوگئى ہے ظاہر ہے كه وه ان فضائل ومناقب ميں كس قدر آگے بڑه چكے ہيں، ان كى خاص صفت يه ہے كه وه حكمت وحلم سے مزين، صاحب بصيرت اور دانائے راز ہيں، اور ان كى دانشمندى نے كتنوں كو حضيض جہل سے نكال كر رفعت ثريا عطا كى ہے :
جو كه كنار كے خو گر تهے ان غريبوں كو * ترى نوا نے ديا ذوق جذبه ہائے بلند
استاد محترم كى اجازت طلبه كے لئے فخر كى بات ہے، علم كے ساته سند كا اتصال دنيا كے مظاہر سيادت وشرف سے بدرجہا بلند ہے، ہمارے لئے اس سے بڑا كون سا اعزاز ہو سكتا ہے كه ہم ايك ايسے سلسله سے مربوط ہو جائيں جس كى ابتدا سيد المرسلين صلى الله عليه وسلم سے ہوتى ہے، اور پهر يه سلسله صحابۂ كرام رضي الله عنہم، سلف صالحين، اور صدى به صدى علماء سے گزرتے ہوئے ہم تك پہنچتا ہے، اور حق يه ہے كه ماضى سے گہرے تعلق كے بعد ہى مستقبل كے آفاق طے ہوتے ہيں:
صنوبر باغ ميں آزاد بهى ہے پا به گل بهى * انہيں پابنديوں ميں حاصل آزادى كو تو كرلے
ميں نے طلبه كى توجه اس طرف مبذول كى كه مغرب ميں ان كو كس قسم كے چيلنجز كا سامنا ہے، وه خود كو علمى اور فكرى طور پر اس كے لئے تيار كريں، كيونكه انہيں يہاں كے معاشره ميں ہر سطح پر كام كرنا ہے، جو چيزيں ممكن نہيں ان كے پيچهے نه پڑيں، ان كے متعلق باتيں كركے اپنى صلاحيتيں ضائع نه كريں، اور اپنے اور دوسروں كے اوقات كا خون نه كريں، ان لوگوں كى صحبت سے پرہيز كرين جن پر ياس ونا اميدى كا غلبه ہے، اور جنہيں پورى دنيا تاريك نظر آتى ہے:
عشق ومستى كا جنازه ہے تخيل ان كا * ان كے انديشۂ تاريك ہيں قوموں كے مزار
مواقع موجود ہيں، ان كو سمجهيں، آپ جب كام كريں گے تو آپ كو اندازه ہوگا كه امكانات لا محدود ہيں، عقل وخرد كے دريچے وا كريں: نه ہو اپنى آنكه جو حسن بيں، تو جہاں ميں كوئى حسيں نہيں
انہيں يه بهى ياد دلايا كه زندگى ميں ايك ہى وقت بہت سى سمتيں ہوتى ہيں، ہر زمان ومكان فطرتًا كثير الابعاد ہے، آپ كو زندگى كى پيچيدگيوں اور معاشره كے تناقضات پر نظر ركهنى ہوگى، سازگار ونا سازگار سے ہاته ملائيں، موافق ومخالف سے نسب قائم كريں،اور فكر وتامل كى عادت ڈاليں، آپ اس دهوكه سے بچيں كه زندگى يك سمتى حقيقت ہے، جب عقل ونظر كا صحيح استعمال كريں گے تو آپ پر نئى نئى راہيں كهليں گى، چشم تنگ كثرت نظاره سے وا ہوتى ہے، آپ لكير كے فقير نه بنيں، اور اپنا جہاں آپ پيدا كريں:
كيفيت باقى پرانے كوه وصحرا ميں نہيں * ہے جنوں تيرا نيا پيدا نيا ويرانه كر
يه پورا پروگرام اتنا حسين ودلكش تها كه كسى كا دل نہيں چاہتا تها كه ختم ہو، گويا ايك خيال تها جو گزر گيا، اور ان سطروں كو لكهتے وقت بهى وہى نشه ہے: ہيں خواب ميں ہنوز جو جاگے ہيں خواب ميں