Select Page

مسلمان اقلیتوں کے مسائل فقہ اسلامی کی روشنی میں
بقلم: ڈاکٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ

فقہ الاقلیات کا مفہوم:
بین الاقوامی استعمال کے مطابق اقلیت ایک سیاسی اصطلاح ہے، جس سے مراد کسی ملک کی وہ جماعت یا جماعتیں ہیں جو نسل، زبان، یا مذہب میں وہاں كى اکثریت سے مختلف انتساب رکھتی ہوں، عام طور سے اقلیات کا مطالبہ ہوتا ہے کہ شہری اور سیاسی معاملات میں ان کے اور اکثریت کے درمیان کوئی امتیاز نہ ہو، جبکہ عقیدہ اور قدروں کے میدان میں انہیں اپنے تشخص اور امتیاز کو باقی رکھنے کا حق حاصل ہو۔
فقہ الاقلیات ایک جدید اصطلاح ہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ مذہبی، تعلیمی، اجتماعی، معاشی اور سیاسی سطحوں پر مسلم اقلیات جن مسائل اور حالات سے دو چار ہیں ان کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو ان کے مذہب کے لئے قابل قبول ہو اور جس سے عام شہریوں کی طرح زندگی گزارنے میں ان کے لئے کوئی دشواری نہ ہو۔

مسلم اقلیات تاریخ کے مختلف مراحل میں:
مسلمان اقلیت کی موجودگی کوئی نیا مسئلہ نہیں، اسلام کی ابتدا میں مکہ مکرمہ میں، پھر حبشہ میں مسلمان اقلیت ميں تھے، اور تاریخ کے ہر دور میں تبلیغ اور تجارت کے مقصد سے مسلمانوں کی مختلف جماعتوں نے غیر مسلم ممالک میں اقلیت کی حیثیت سے رہنا گوارا کیا، ہندوستان کے ساحلی علاقوں، سری لنکا، چین، مشرقی افریقہ، انڈونیشیا، فلپین اور بحر الہند کے جزیروں میں شروع میں آباد ہونے والی مسلمان جماعتوں کا تعلق اسی طرح کی اقلیت سے ہے، زمانہ کے ساتھ ان سوداگروں اور مبلغین نے مقامی عورتوں سے شادی کی، اور دوسری اور تیسری نسل ان علاقوں کی باشندہ ہوگئی، بسا اوقات مقامی آبادیوں نے اسلام قبول کرکے مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ کیا، بعض جگہوں پر اسلام میں داخل ہونے کا رجحان اتنا طاقتور تھا کہ کہ شروع میں جن کو کمزور اقلیت سمجھا جاتا تھا کچھ عرصہ میں وہ اکثریت میں تبدیل ہوگئے، جیسا کہ ملیشیا، انڈونیشیا اور دنیا کے بعض دوسرے علاقوں میں ہوا۔
فقہاء نے ہمیشہ مسلم اقلیتوں کے مسائل سے بحث کی، چونکہ اسلام بنیادی طور سے مسلمانوں کو غالب دیکھنا چاہتا ہے، اور اقلیت کی حیثیت سے ان کی موجودگی کی ہمت افزائی نہیں کرتا، بلکہ ایسے علاقوں سے ہجرت کی ترغیب دی گئی ہے جہاں مسلمان کمزور ہوں اور دین پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہو، اس لئے ہمارے فقہاء نے فقہ کے اس حصہ کو مستقل حیثیت نہیں دی، اس عارضی صورت حال کے مسائل فقہ اور فتاوی کی کتابوں کے متعلقہ ابواب میں ضمنی حیثیت سے ذکر کئے گئے ہیں۔

عصر حاضر میں مسلم اقلیات:
آج مسلمانوں کی تقریبا ایک تہائی آبادی ان جگہوں پر اقلیت کی حیثیت سے آباد ہے جہاں دوسرے مذاہب، نظریات اور عقائد کے لوگوں کو انتظامی، تقنینی اور سیاسی بالادستی حاصل ہے، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی اقلیت کی حیثیت سے نہیں پائی گئی، تنہا ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد ایک محتاط اندازہ کے مطابق تیس کروڑ (تين سو ملین) سے زائد ہے، تاریخ کے کسی مرحلہ میں اور زمین کے کسی علاقہ میں شاید ہی اتنی بڑی اقلیت پائی گئی ہو، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہندوستان میں مسمان اقلیت نہیں بلکہ دوسری اکثریت ہیں، ہندوستان کے علاوہ چین، سری لنکا، نیپال، برما، اور ایشیا اور افریقہ کے دوسرے ممالک ميں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اقلیت کی حیثیت سے آباد ہے۔
یورپ میں صرف البانیا اور بوزنیہ میں مسلمان اکثریت میں ہیں، باقی دوسرے ممالک میں اقلیت میں ہیں، اگرچہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یورپ کے بہت سے علاقوں میں مسلمانوں کی طاقتور حکومتیں رہی ہیں، اسپین میں مسلمانوں نے تقریبا آٹھ سو سال حکومت کی، اور بعد کے ادوار میں سلطنت عثمانیہ نے یورپ کے وسيع رقبه پر صدیوں تک حکومت کی، لیکن اس وقت یورپ کے اکثر علاقوں میں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں، یورپ کے علاوہ امریکہ، کناڈا اور اسٹریلیا میں بھی مسلمانوں کی معتد بہ تعداد ہے، بلکہ چین اور روس وغیرہ میں بعض علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، اور عرصۂ دراز سے محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

مسلم اقلیات کے مسائل:
علاقائی حالات کے تقاضوں سے ان مسلم اقلیات کے کچھ معاملات ایک دوسرے سے جدا ہیں، مگر زیادہ تر امور ان کے درمیان مشترک ہیں، قدیم مسلم اقلیات کے مقابلہ میں عصر حاضر کی مسلم اقلیات کے مسائل بہت بڑھ گئے ہیں، ان مسائل کا حل دریافت کرنے سے پہلے ہمیں آج کی مسلم اقلیات کی صورت حال کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا، ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ:
1- ماضی میں عام طور سے مسلم ممالک کو قوت وغلبہ حاصل تھا، اور سرزمین اسلام میں یہ سرحدیں نہیں تھیں، اگر کسی علاقہ میں حالات پریشان کن ہوتے تو لوگ وسیع اسلامی دنیا کے کسی پر امن حصہ میں منتقل ہوجاتے۔
2- اس وقت قومیت اور شہریت کا وہ مفہوم نہیں تھا جو اس وقت ہے۔
3- اس وقت زمیں کا یہ اتحاد نہیں تھا۔
4- قدیم زمانوں میں مسلم اقلیات کے مسائل زیادہ تر انفرادی نوعیت کے تھے، ان کا تعلق حلال غذا، حلال گوشت، رویت ہلال، اور پرسنل لا وغیرہ کے مسائل سے تھا، ان مسائل کا حل فقہ الضرورات، یا فقہ النوازل کے تحت کیا جاتا تھا۔

آج کی مسلم اقلیات کے مسائل زیادہ، وسیع، عمیق اور پیچیدہ ہوگئے ہیں، یہ مسائل اسلامی تشخص سے لے کر نئے وطن میں اسلام کے پیغام کی اشاعت، غیر مسلم اکثریت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور ملک کے جديد سیاسی، تعلیمی اور معاشی امور تک سیکڑوں مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں فقہاء کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تقریبا نا ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد کو ہجرت کا حکم دیا جائے، بلکہ مسلم ممالک اتنی بڑی تعداد کے استقبال پر کبھی راضی نہیں ہوں گے، مزید برآں اسلام کے احکام پر عمل کرنے کی آزادی اور سہولیات میں بہت سے مسلم ممالک غیر مسلم ممالک سے بہتر نہیں، ان غیر مسلم ممالک میں اس قدر مساجد، مدارس، کتبخانے اور اسلامی آثار ہیں کہ ان سے دستبرداری کسی طرح حکمت کا تقاضا نہیں، اس لئے عصر حاضر میں مسلمان اقلیات کے مسائل پر خصوصی توجہ دینے کا رجحان پایا جارہا ہے، اور فقہ الاقلیات کے عنوان سے ایک لٹریچر وجود میں آرہا ہے، اس فقہ کی بنیاد فقہ کے دوسرے ابواب کی طرح قرآن کریم کی آیات، احادیث، اجماع اور اجتہاد پر ہے۔

دو مختلف حل:
فقہ الاقلیات کے موضوع پر کام کرنے والے علماء اور دانشوروں کے درمیان شدید اختلافات ہیں، ان کی رائیں اور مشورے اس قدر متضاد ہیں کہ عام مسلمان سخت تشویش اور بے چینی کا شکار ہیں، بنیادی طور پر اس موضوع پر کام کرنے والوں کو جدت پسند اور قدامت پسند دو طبقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
1- جدت پسندوں کی رائے: اس رائے کا خلاصہ ہے کہ مسلم اقلیتوں کے مسائل اسی وقت حل ہو سکتے ہیں جب وہ اکثریت کے ساتھ قومی دھارے میں منضم ہوجائیں، تعلیم، معیشت، معاشرت، اور سیاست کے تمام میدانوں میں پوری طرح حصہ لیں، اور ترقی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہ رہیں، اس گروہ کے نزدیک یہودی کامیاب اقلیت کی سب سے بہتر مثال ہیں، اپنے تشخص کر برقرار رکھتے ہوئے یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک میں یہودیوں نے حیرت انگیز ترقی کی ہے، ان کا حصہ ان معاشروں میں ان کی تعداد کے تناسب سے کہیں بڑھا ہوا ہے، تعلیم ومعیشت کے میدانوں میں کوئی قوم ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی، لہذا اگر ہم معاشرہ اور حکومت میں کوئی مؤثر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ترقی کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے اسلام کی ایسی تشریح کرنی چاہئے کہ اس سے ہمارے طرز عمل کی تائید ہو، عصرحاضر میں اس فکر کے نمایاں علمبرداروں میں فضل الرحمن صاحب تھے۔
2- قدامت پسند حضرات کا مسلک: دوسری طرف قدامت پسند علماء کا مسلک ہے، بر صغیر کے فقہاء اور مفتیان کرام کا تعلق اسی مسلک سے ہے، عام طور سے ہمارے مفتی آج کل کی مسلم اقلیات کے حالات ماضی کی مسلم اقلیات کے حالات پر قیاس کرتے ہیں، ان کے فتووں کا خلاصہ ہے کہ تعلیم ومعیشت، معاشرت وسیاست کے میدانوں میں مسلمانوں کو اندھا دھند داخل ہونا صحیح نہیں، کیونکہ ان ممالک کے موجودہ حالات مذہب دشمنی یا کم سے کم مذہب سے لا تعلقی کی پیداوار ہیں، اس لئے زندگی کے تمام شعبے غیر اخلاقی اور غیر دینی اجزاء پر مبنی ہیں، اس معاشرہ میں انضمام کے معنی مذہب اور اخلاق کو قربان کرنے کے ہیں، ان حضرات کے نزدیک ہمیں اپنے دین کی خاطر کسی قسم کی مادی، معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔

ان دونوں رایوں پر تنقید:
پہلی رائے کی غلطی اظہر من الشمس ہے، کیونکہ مسلمان امت دعوت ہیں، انہیں اس لئے مبعوث کیا گیا ہے کہ دوسروں کی رہنمائی کریں، نہ یہ کہ وقتی فائدہ کے لئے دوسروں کے رنگ میں رنگ جائیں، یہودیوں نے جو مادی ترقی حاصل کی ہے، اس کے لئے ان کو مذہب اور اخلاق کی زبردست قربانی دینی پڑی ہے، کتاب الہی میں ان پر لعنت کی گئی ہے، دنیا کی قیادت سے ان کو بر طرف کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، اور ان کی دنیا داری اور مادہ پرستی کے جرائم کی تفصیل پیش کی گئی ہے، یہ اس لئے نہیں ہے کہ مسلمان ہدایت کی عظیم نعمت کی ناشکری کرکے ایک ملعون قوم کے راستہ پر چلیں، مسلمانوں کے دین کی بنیاد اس اعلان پر ہے “ان صلاتي ونسکي ومحیاي ومماتي للہ رب العالمین “، دنیاوی زندگی کے سلسلہ میں مسلمانوں کا موقف کیا ہونا چاہئے اسے قرآن نے اچھی طرح کھول دیا ہے “ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ “۔
دوسری رائے کے پیچھے ہمارے علمائے ربانیین کی ایک بڑی تعداد ہے، جن کے علم، تقوی اور اخلاص میں کوئی شبہہ نہیں، ہندوستان میں برطانوی استعمار کے استجکام کے بعد ان علماء نے جو موقف اختیار کیا تھا اس کی افادیت سے انکار نہیں، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیھما نے جس دانشمندی کا ثبوت دے کر مدرسۂ دیوبند کی بنیاد رکھی اس کی اہمیت واضح ہے، سوال یہ ہے کہ ان کا موقف ایک عارضی تدبیر کے درجہ میں تھا یا ایک مستقل حل؟

صحیح طریقۂ کار:
میرا خیال ہے کہ ان علمائے ربانیین کا طریقہ ایک وقتی اور جزئی تدبیر کے درجہ میں تھا، ہمیں دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلم اقلیات کو درپیش مسائل کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا، اگر ان مسلم اقلیتوں کی صحیح رہنمائی کی جائے تو اشاعت اسلام کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں، اور کیا بعید ہے کہ ماضی کی طرح آج بھی دنیا کے بہت سے علاقے مسلم اقلیت کے مرحلہ سے نکلکر مسلم اکثریت کے ممالک بن جائیں، فقہ الاقلیات پر سنجیدگی سے غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان فتووں کے انتشار کی صورت حال سے دوچار ہیں، ایک فقیہ کسی چیز کو حلال ٹھراتا ہے تو دوسرا اس کی حرمت کا فتوی دیتا ہے، ایک فقیہ کہتا ہے کہ دار الحرب میں وہ چیزیں جائز ہیں جو دار الاسلام میں جائز نہیں، ایک فقیہ آج کے حالات کو کل کے مسائل پر قیاس کرتا ہے، اور فقہ وفتاوی کی کتابوں میں نظیریں تلاش کرتا ہے، حالانکہ دونوں صورتوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے، اس طریقۂ کار کی غلطی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان سخت انتشار اور بے چینی کا شکار ہیں، معاشرہ میں کوئی مؤثر ادا کرنے سے بے بس ہیں، تنہائی اور حاشیائی زندگی ان کا مقدر بنتی جارہی ہے، زندگی کی دوڑ میں معذوروں کی طرح ان سے معاملہ ہو رہا ہے، ان پر پس ماندگی، اور اسلام پر نا اہلیت کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے یہ دونوں طریقۂ کار غلط ہیں، ضروری ہے کہ ہم فقہائے متقدمین کی طرح براہ راست قرآن کریم اور سنت نبوی کی طرف رجوع کریں، مجمع عليه امور پر سختى سے قائم رہتے ہوئے ديگر مسائل ميں تيسير كے رجحان كے ساته اجتہاد سے كام ليں، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے فقہی ورثہ سے دستبردار ہوجائیں، یہ فقہی ورثہ کئی حیثیتوں سے ہماری مدد کر سکتا ہے، لیکن اپنے مسائل کا حل ان حدود میں تلاش کرنا قطعا غلط ہے جو ہمارے ماحول سے کلیۃ مختلف ہے ۔
یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی یہ ایک تہائی آبادی جو اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے اس کی صحیح تنظیم اور اس کی طاقت اسلام کی اشاعت میں مدد دے سکتی ہے، یہاں دو بنیادی امور ہیں ان کو اچھی طرح سمجھ لینے سے فقہ الاقلیات پر غور کرنے کے لئے صحیح طریقۂ کار کے اختیار کرنے میں مڈ ملے گی، ایک یہ کہ مسلمانوں کی حقیقی حیثیت سمجھی جائے، کیا وہ عام قوموں کی طرح ایک قوم ہیں، یا ان کا کوئی الگ مقام ہے، اس کے بعد یہ جاںا ضروری ہے کہ اس امتیازی مقام کے ساتھ باقی رہتے ہوئے دوسرے ہموطنوں سے ان کے تعلق کی نوعیت کیا ہو؟

امت مبعوثہ:
مسلمان ایک امت مبعوثہ ہیں، وہ دنیا میں ایک مشن لے کر آئے ہیں، ایک پیغمبر کے لئے اس کا پیغام ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس کے داہنے ہاتھ میں اگر سورج رکھ دیا جائے اور بائیں ہاتھ میں چاند تب بھی وہ اپنے پیغام کے کسی حصہ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔

غیر مسلمانوں سے تعلق کی نوعیت:
قرآن کریم میں آیا ہے: “لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین، انما ینھاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون” ۔
امام ابن جوزی فرماتے ہیں: “جو لوگ مسلمانوں سے بر سرپیکار نہیں ان سے تعلقات رکھنے، حسن سلوک کرنے کی اس آیت میں اجازت ہے، لیکن موالات صحیح نہیں” ، امام قرطبی فرماتے ہیں: یہ آیت اللہ تعالی کی جانب سے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی رخصت ہے جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کی اور نہ ہی جنگ کی” ۔
امام ابن جریر نے زور دیا ہے کہ یہ آیت ہر دین، ملت اور مذہب کے غیر مسلموں کے لئے عام ہے، فرماتے ہیں: ان سارے اقوال میں صحت سے زیادہ قریب ان لوگوں کا قول ہے جو کہتے ہیں کہ ‘لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین’ سے تمام مذاہب وملل کے لوگ مراد ہیں” ۔
كبار مفسرين كے مندرجه بالا اقوال پر سنجيدگى سے غور كرنے كى ضرورت ہے، ان كى روشنى ميں يه آيت غير مسلم اكثريت بلكه ايك وطن ميں رہنے والے تمام مسلم اور غير مسلم باشندوں كے ساته عدل وانصاف اور امن وآشتى كى ٹهوس بنيادوں پر معامله كرنے كے اصول فراہم كرتى ہے، يه آيت مسلمان اقليتوں كو اجازت ديتى ہے كه كس طرح دوسرى قوموں كے شانه بشانه ملك ووطن كى ترقى ميں مثبت كردار ادا كريں، يه مثبت كردار ان كى قدر وقيمت ميں اضافه كرے گا، ان كے لئے اپنے مذہبى شعائر واركان پر عمل كرنا آسان كردے گا، دعوتى ذمه داريوں كى ادائيگى ميں معاون ہوگا، اور دوسرى قوموں كى ہدايت اور خدا كے دين ميں داخله كے درواز ے كهول دے گا ۔